سوشل میڈیا صارفین کی عمر کی حد نافذ کرنے پر تشویش کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے؟

SOCIAL MEDIA STOCK

Social media apps, as displayed on an iPhone (AAP) Credit: JOEL CARRETT/AAPIMAGE

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے کم از کم عمر کی حد نافذ کرنے کے لیے قانون سازی سال کے آخر تک متعارف کروائی جائے گی۔ لیکن کچھ ماہرین اس پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے اسے غلط حکمتِ عملی قرار دیے رہے ہیں۔


وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے کم از کم عمر کی حد نافذ کرنے کے لیے قانون سازی سال کے آخر تک متعارف کروائی جائے گی۔اگرچہ سیاست دان عام طور پر سوشل میڈیا پر عمر کی حد کی ضرورت پر متفق ہیں، لیکن بہت سے محققین اور نوجوانوں کے گروپس اس حکمتِ عملی کی مخالفے کرتے ہیں۔
پابندی کے نفاذ کی صلاحیت، مخصوص عمر کی حدود، اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے ردعمل کے طور پر اٹھنے والے کئی سوالوں کے جواب موجود نہیں ہیں۔مگر نائن نیٹ ورک پر بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے منطق بہت سادہ ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا آسٹریلین نوجوانوں پر منفی اور بعض اوقات خطرناک اثرات ڈال رہا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کا بےضابطہ استعمال ذہنی صحت کے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔
یہ قانون سازی جنوبی آسٹریلیا کے اس اعلان کے بعد کی گئی ہے جس میں اس نے ہفتے کے آغاز میں اپنے مجوزہ مسودہ قانون کے بارے میں بتایا تھا، جس میں پلیٹ فارمز پر عمر کی حد نافذ کرنے کی بات کی گئی تھی۔
جنوبی آسٹریلیا کے وزیر اعلیٰ پیٹر مالیناسکس کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ انفرادی ریاستی قوانین کے مقابلے میں پورے ملک میں یکساں قانون سازی زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔

آسٹریلیا دنیا کے سب سے زیادہ آن لائن صارفین کی آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے۔2023 میں یونیورسٹی آف سڈنی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ 13 سے 17 سال کی عمر کے دو تہائی نوجوانوں نے یوٹیوب یا انسٹاگرام استعمال کیا تھا۔
وفاقی حزب اختلاف کے مواصلات کے ترجمان ڈیوڈ کولمین عمر کی حد کی پُر زور حمایت کرتے ہیں۔

گرچہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ یہ قانون سازی والدین کی بات سننے اور بچوں اور نوجوانوں کی حفاظت کو ترجیح دینے کو ظاہر کرتی ہے، مگر ہر ایک ان مجوزہ پابندیوں کی وسیع نوعیت سے متفق نہیں ہے۔
ڈینیئل اینگس کوئینزلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ڈیجیٹل میڈیا ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سے منسلک ذہنی صحت کی خرابی پر کی گئی بہت سی تحقیق اور تحریریں فرسودہ ہیں، اور اکثر پیچیدہ مسائل کے لیے بہت سادہ حل پیش کرتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جوناتھن ہیٹ کی کتاب 'Anxious Generation' جیسی کتابیں بہت اچھی فروخت ہوتی ہیں، لیکن اکثر دوسرے محققین کے کام کا ذکر نہیں کرتیں۔
ماہرینِ نفسیات اور نوجوانوں کے گروپس خبردار کر رہے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ذہنی صحت کی مدد تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے۔
آسٹریلیا کے سابق چیف جسٹس رابرٹ فرنچ کی تحریر کردہ رپورٹ میں سوشل میڈیا کے نوجوانوں کے لیے فوائد کو تسلیم کیا گیا ہے، خاص طور پر ان کے لئے جو پسماندہ گروپس سے تعلق رکھتے ہیں اور آن لائن سپورٹ گروپس یا کمیونٹی تلاش کرتے ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ صرف سوشل میڈیا کو ہی کیوں پابندی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ نقصان دہ مواد انٹرنیٹ پر ہر جگہ دستیاب ہے اور صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک محدود نہیں ہے۔
پابندی کے مؤثر ہونے اور اس کے ممکنہ منفی اثرات کے بارے میں خدشات کے ساتھ ساتھ، قانون سازی کے نفاذ سے متعلق بہت سے سوالات بھی جواب طلب ہیں۔
ڈینیئل اینگس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک کو غیر منصفانہ طور پر مکمل طور پر منفی تصور کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ وہ تصویر نہیں ہے جو زیادہ تر نوجوانوں کے تجربات کو ظاہر کرتی ہو۔
____________________

کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا
کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے:

شئیر